Wednesday, September 4, 2013

atay jatay, achi lagti hay, sarfraz baig, آتے جاتے، اچھی لگتی ہے سرفراز بیگ



آتے جاتے

دن سارا تیرے پاس گزاروں
پھر بھی تیرا دروازہ دیکھوں آتے جاتے

رات تو میرے سپنوں میں آئے
دن کو بھی یاد کروں آتے جاتے

جب میں دروازہ کھول کے دیکھت ہوں
تم جوتوں کی ٹک ٹک کرجاتی ہو آتے جاتے

جب کوئی لڑکی گاڑی چلاتی جاتی ہے
میری نظریں تم کو ڈھونڈیں آتے جاتے

جب کوئی صورت تم سے ملتی جلتی دیکھوں
اس کو پھر میں غور سے دیکھوں آتے جاتے

سڑکوں پے چلتے چلتے پیچھے مڑ کے دیکھوں
شایدتم نے پکارا مجھے آتے جاتے

گھر سے تمہارے نکلوں ، مڑ مڑ کے دیکھوں
مجھ کوکوئی دیکھ نہ لے یوں آتے جاتے

سرفراز بیگ ۱۹۹۹۔۱۱۔۰۶ راولپنڈی

No comments:

Post a Comment